میرا نام صدف دختر محمد ریاض قوم راجے کلس سکنہ کوٹ احمد خان میانی کی رہائشی وسکونتی ہوں میری والدہ کا نام خورشید ہے ہم 6 بہن بھائی ہیں میرے پانچ بھائی ہیں سب سے بڑے بھائی کانام جمشید تھا میرے والدین کی لڑائی ہوئی اس لڑائی کے دوران اسے چوٹ لگی اور وہ فوت ہو گیا میرے بھائی کی اس وقت عمر 5/6 ماہ تھی دوسرے نمبر پر بھائی باسط ہےاس کی عمر 22سال ہے وہ ایک فیکرٹی میں کام کرتا ہے تیسرے بھائی کا نام واجد ہے وہ میری پھوپھو کے پاس ہوتا ہے اس کی عمر 19سال ہے وہ مستریوں کے ساتھ کام کرتا ہے جو کمائی اُسے ملتی ہے وہ میری پھوپھو لے لیتی ہے چوتھا بھائی محمد علی وہ میرے والد کے پاس ہوتا ہے میرے والد نے اُسے اپنے کام کے لئے رکھا ہوا ہے وہ موٹر سائیکلوں کا کام کرتا ہے پانچویں نمبر پر میں ہوں میرے سے چھوٹا ایک بھائی ہے اس کا نام اویس ہے ہم سب جب چھوٹے تھے اس وقت میرے ابونے میری امی کوطلا ق دے دی طلاق کے بعد میری والدہ اپنے والدین کے گھر چلی گئ میری والدہ نے آج تک ہمارا پتہ نہیں کیا کہ ہم کس حال میں ہیں میرے والد نے کچھ ماہ کے بعد دوسری شادی کر لئی میری سوتیلی والدہ جس کا نام زرینہ فوزیہ بھی کچھ دن رہی اس کے بعد وہ کسی اور کے ساتھ بھاگ گئ پھر میرے والد نے تیسری شادی کی وہ میری سوتیلی والدہ جس کا نام نادیہ پروین ہے وہ ابھی بھی موجود ہے اس والدہ سے میرے دو بہن بھائی ہیں ایک بہن اور ایک بھائی جب میری بہن پیدا ہوئی تو میری سوتیلی والدہ کا کہنا تھا یہ میری بچی کو مارتی ہے اس کا گلہ دبا دیتی ہے میرے ابو کو کہتی تھی یہ پیسے چوری کرتی ہے گھر کی چیزیں چوری کرتی ہے جس کی وجہ سے میرے ابو مجھے بجلی کی تاروں سے مارتے تھے پانی والے پائپ سے مارنا میرے جسم پر آج تک نشانات موجود ہیں میرے والد نے مجھے مارا اس کے بعد میرا تایا محمد شبیر ہمارے گھر آیا اُس وقت میری عمر 13 سال تھی جب میرا تایا ہمارے گھر آیا اس نے کہا میں اسے اپنی بیٹی بنا لیتا ہوں میرے والد نے تھانے میں جا کر ایک اشٹام پیپر پر لکھ کر دیا کہ آج کے بعد میرا اس بیٹی سے کوئی تعلق واسطہ نہ ہے میرا اس کے ساتھ جینا مرنا ختم ہو گیا ہے
آج کے بعد اس کے قول وفعل کا ذمے دار میرا بھائی محمد شبیر ہو گا میرے تائے نے مجھے اپنے گھر میں رکھنا شروع کر دیا میں ان کے پاس رہتی رہی میرے تائے محمد شبیر نے میرے ساتھ زیادتی کی جب گھر میں کوئی نہیں ہوتا تھا تو میرا تایا میرے ساتھ زیادتی کرتا تھا میں نے کہا کہ تم مجھے اپنی بیٹی بنا کر لائے تھے اس نے کہا کہ تمہارے باپ نے مجھے اشٹام پیپر پر لکھ کر دے دیا ہے اب میں جو مرضی کروں پھر اس نے کہا کہ میں تمہیں جان سے مار دونگا میرے تھوڑی پر اس نے دانتری ماری تھی جس کا نشان ابھی بھی موجود ہے پھر راجہ محمد ارشد جو اس کا بیٹا ہے اس کو مجھے اور خود ایک دوکان پر گے وہاں سے ایک اشٹام پیپر لیا مجھے بھیرہ بھی لے کر گے مجھے نکاح کا کہہ کر نہ کوئی مولوی آیا نہ کوئی وکیل مجھے کہا یہ ایک وکیل ہے اشٹام پیپر پرمیرے زبردستی انگھوٹے لگوا لئے دو سال تک یہ دونوں باپ بیٹا میرے ساتھ زیادتی کرتےرہے پھر اس کے بیٹے نے میرے ساتھ شادی کے نام پر زیادتی کی وہ روزانہ میرے ساتھ زیادتی کرتا تھا بیٹا تو بیوی کے نام پر زیادتی کرتا تھااس کے ساتھ ساتھ تایا بشیر بھی زیادتی کرتا تھا ان کی زیادتیوں کی وجہ سے میں ایک دفعہ لاہور چلی گئی تھی مجھے بار بار کہتے تھے تم دوبارہ یہیں دھکے کھا کر واپس آو گی میری تائی بھی سارا گھر کا کام کرواتی تھی میرے ساتھ ظلم کرتی تھی ایک دفعہ پھر ان لوگوں نے مجھے مارا میں بھیرہ آگئی بھیرہ سے گاڑی میں بیٹھ کر یہاں سرگودہا آگئی میں لاری اڈے پر پہنچی تو خاتون نے مجھے روتے ہوئے دیکھا تو اس نے آپ کے ادارے سٹار ویلفیئر آرگنائزیشن (حوا شیلٹر ہوم ) پناہ گاہ میں مجھے پہنچا دیا میں نے یہاں آ کر سارا ماحول دیکھا تو میں نے یہاں کی انچارج سے بات کی میرے ساتھ دو سال سے یہ ظلم ہو رہا ہے اس وقت میر عمر 13 سال تھی اس وقت میری عمر 15 سال ہے دو سال تک میرا تایا محمد شبیر اور اس کا بیٹا محمد ارشد میرے ساتھ زیادتی کرتے رہے
(نوٹ) یہ بچی اس وقت ادارے میں موجود ہے اس نے اپنا بیان ریکارڈ کروایا ہے اس کی آواز کو اعلی حکام تک پہنچا رہے ہیں ان کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لا کر ملزمان کے خلاف ایف آئی آر اندراج کی جائے کھلینے کودنے اور پڑھنے کی عمر میں اس کے ساتھ ظلم کیا گیا اس کے والد نے اس کو بھڑیوں کے حوالے کر دیا ۔
مورخہ 2023/01/12 کو صدف کو ایس پی تنویر بھوال
کے سامنے سب انسپیکٹر میڈم عنصربھلوال اور شیلٹر انچارج میڈم رفعت رانی کے ہمراہ
پیش کیا جس میں صدف کے بیان قلم بند ہوئے ایس پی صاحب نے حکم دیا کہ بچی کے بیان
کے مطابق ان کا میڈیکل کروایا جائے اور ملزمان کو گرفتار کر کے چالان کیا جائے اُس
دن ایس پی آفس میں صدف کے بیان ہوئے میڈیکل نہ ہوا مورخہ 2023/01/14کو بعدالت جناب رانا خالد
محمود صاحب سول جج درجہ اول مجسٹریٹ دفعہ 30 بھیرہ میں صدف کا بیان ریکارڈ ہوا وہاں پر ملزمان کی طرف سے وکیل پیش ہوا جس
نے کافی غلط قسم کے الزامات لگائے لیکن صدف نے عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کروایا
اور میڈیکل کا حکم دے دیا گیا 2023/01/14 کو تحصیل ہیڈ کواٹر ہسپتال بھیرہ میں صدف
لو لے جایا گیا مگر میڈیکل نہ ہو سکا پھر مورخہ 2023/01/16کو میڈیکل کے لئے لے
جایا گیا اُس دن میڈیکل ہوا لکین ادھورا مورخہ 2023/01/17کو مکمل میڈیکل ڈاکٹر ماہ
نور صاحبہ نے کیا اُ سکی کوئی بھی رپورٹ
ہمیں نہ دی گئی صدف نے اپنے جسم کے تمام نشان دیکھائے جو اُس کے جسم پر نشان تھے
جسم کا مکمل معانئہ کروایا جسم پر جہاں جہاں نشانات تھے وہ سب نوٹ کروائے وہ
میڈیکل ہو گیا مورخہ 2023/01/19 کو پی ایف
ایس اے لاہور میں فرانزک کے لئے صدف کو لے جایا گیا لکین وہاں پر سب انسپیکٹر میڈم
عنصر کے مطابق کہ وقوعہ کیوں کہ 2 سال پرانا تھا اس لئے میڈیکل میں فرانزک نہیں ہو
سکتا اور اُسے خارج کر دیا گیا ۔بچی کے جسم پر جو نشانات تھے آج بھی ہیں ان سب کا
کچھ بھی نہ ہوا ہے
صدف کی ایف آئی آر مورخہ 2022/01/29کو مقدمہ نمبر 22/381تھانہ میانی تحصیل بھیرہ ضلع سرگودہا میں اندراج ہوا بچی صدف کے ساتھ 2 سال زیادتی ہوتی رہی جو کہ اس کا سگا تایا کرتا رہا اپنے جرم کو چھپانے کے لئے اُس نے اپنے 45 سالہ بیٹے ارشد کے ساتھ زبانی کلامی نکاح کروا دیا اُن کا کوئی بھی ریکارڈ موجود نہ ہے عدالت کو بھی بتایا گیا کہ شرعی نکاح کروایا گیا ہے
مقدمہ نمبر22/381
تھانہ میانی سرگودہا میں درج ہوا جس میں صدف
ریاض نے الزام لگائے 2023/01/06 کو راجہ مقبول الہی اور محمد ریاض ادارے میں پیش
ہوئے صدف کی تائی علاقے کی دو خواتین ان کی قریبی رشتے دار اس کا سوتیلا نانا اور
نانی پیش ہوئے سب نے اس واقعے کو جھوٹ کہا کہ یہ جھوٹ بول رہی ہےریاض نے کہا کہ
میں حلف دیتا ہوں میرا بھائی بے گناہ ہے میں نے اپنی بیٹی اپنے بھائی کو دے دی تھی
پھر اس کی مرضی سے اس کا نکاح ہوا بعد میں مجھے کبھی بھی اس نے گلہ نہ دیا میں ایک
بار اس کو لینے کے لئے اپنے بھائی کے گھر گیا پھر میں قریبی رشتے داروں کو لے کر
گیا اس پر بھی صدف نے میرے ساتھ جانے سے
انکار کردیا کہ میں یہاں خوش رہ رہی ہوں
2023/02/02
کو صدف کے والد ریاض
نے ملاقات کی اپنی بیوی کے ہمراہ ۔ صدف کا والد اپنے بھائی سے ملاقات کر کے آیا اس
نے کہا میں اپنے بھائی سے ملاقات کر کے آیا ہوں میں اُس کا حلف آپ کو دے رہا ہوں
کہ میرا بھائی بے گناہ ہے میں نے اپنے والد کو کہا آپ نے مجھے قرآن دے دیا ہے میں
کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کرنا چاہتی میری طرف سے پولیس پرچہ خارج کردے میں
کوئی کاروائی نہیں کرنا چاہتی نہ ہی میں آپ لوگوں کے ساتھ جانا چاہتی ہوں نہ ہی
کوئی تعلق رکھنا چاہتی ہوں میں اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنا چاہتی ہوں میرا آپ
سب سے کوئی تعلق واسطہ نہ ہے یہ باتیں ساری ادارے کی انچارج رفعت رانی کے سامنے
ہوئیں ۔اُس دن بھی ریاض نے اپنے ساتھ جانے کو کہا کہ میرے پاس آ جاو اپنی والدہ کے
پاس چلی جاو لکین صدف نے انکار کر دیا کہ میں اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنا
چاہتی ہوں صدف نے اس کیس کو ختم کرنے کو کہا جس پر میں رفعت رانی انچارج حوا شیلٹر
ہوم (جنرل سیکرٹری سٹار ویلفیئر آرگنائزیشن پنجاب )اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ جب
صدف ریاض کوئی کاروائی نہیں کرنا چاہتی تو ادارہ بھی آج کے بعد کوئی کاروائی نہیں
کرئے گا۔