نام طیب عمر 14 سال والد کا نام ذوالفقار جعفری ہے ۔ طیب 5 جماعتیں پاس ہے لاہور کا رہائشی ہے عرصہ 2 سال سے غلط سوسائٹی میں بیٹھ کر آئس پینا شروع کی، آئس کے پیسے کبھی خالہ کبھی کزن،پھوپھو دیتی تھی جو کہ بے حد پیار کرتی ہیں اورپیسے لینا اس کے بعد آکس خرید کر پینا اور غلطدوستوں کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، اس کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ یہ گھر والوں کے ساتھ لڑتا ہے چھوٹے بہن بھائیوں کو مارنا ماں باپ کو ستانا اس کا روز کا معمول ہے۔ طیب 2 بھائی اور 2 بہنیں ہیں۔ طیب اپنے گھر کئی کئی دن نہیں آتا، کبھی پھوپھو کے گھر اور کبھی خالہ کے گھر رہتا ہے۔ 14 سال کی عمر میں اس نے اپنے کزنوں کے پاس چلے جانا دوستوں کے ساتھ رہنا، پورے گھر والوں کو اس نے ستایا ہوا ہے آئس ایک ایسا نشہ ہے جو کہ نوجوان نسل کو تباہ و برباد کر رہا ہے ہماری ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اس ناسور کو جڑ سے اکھاڑیں، جہاں بھی دیکھیں آئس کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے، کئی لوگ اس نشہ کے عادی ہو کر برباد ہو چکے ہیں۔ آئس کا نشہ ایک ایسا نشہ ہے جو استعمال کرے وہ موت ہے ۔ اس کو یہ بھی نہیں سمجھ آتی ہے کہ میں اپنی ماں باپ بہن بھائی کس سے کیا بات کر رہا ہوں عزت نام کی چیز ان کے پاس نہیں رہتی، آئس پینے والے نہ ہی اپنے آپ سے مخلص ہیں اور نہ ہی دوسروں سے مخلص ہیں۔ اپنی زندگی تو ان لوگوں نے برباد کرنی ہے ساتھ دوسروں کو بھی تنگ کر تے ہیں، طبیب دو سال سے آئس پی رہا ہے لاہور کا رہائشی ہر ضلع میں آئس کا استعمال بڑھتا ہی جارہا ہے اور پولیس کے بھی بس سے یہ باہر ہو چکا ہے کیا اس کیلئے ہمیں کوئی علیحدہ فورس بنانا پڑیگی ۔ جو آئس کے ڈیلر ہیں ان کو پولیس نہیں پکڑتی اور جو لوگ ہمارے ملک میں آئس سمگل کر رہے ہیں ان کو بھی پکڑا جائے۔ کیا وہاں پر ڈیوٹی دینے والے سورہے ہیں۔ آئس کی سمگلنگ کو روکنے والا کوئی نہیں ہے انہوں نے ہر گھرکا بچہ تباہ و برباد کر دیا ہے ویسے تو ہمارے ملک کا اللہ ہی حافظ ہے مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے، چاہے بجلی کے بل ہوں، گیس کے بل ہوں یا وہ کھانے پینے کی اشیاء ہو مہنگائی کے ساتھ ساتھ ملاوٹ شدہ چیزیں بھی فروخت ہورہی ہے مگر حکمرانوں اے سی کے مزے لے رہے ہیں۔ پاکستان میں یہ بچے آئس پی رہے ہیں تو اس کی فیملی کا کہنا ہے کہ ہم کس طرح دو وقت کی روٹی بڑی مشکل سے کھاتے ہیں اور کبھی کبھار تو وہ بھی نہیں ملتی ۔ اس مہنگائی سے پریشان گھر والوں کا ایک بچہ اگر آئس پینا شروع کر دے تو اس گھر کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔ کیا ہمارے سیاستدان صرف نعرے لگانے کیلئے ہی ہیں ہمارے بارڈر پر سمگلنگ کو روکا نہیں جا سکتا ۔ کیا بڑے بڑے سمگلروں کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا ۔ اگر ان کو گرفتار کیا جا سکتا تو اس طرح طیب جیسے بچے اس دلدل سے بچ جائیں گے اور اگر اس کو روکا نہ گیا تو آنے والی نسل تباہ و برباد ہو جائیں گی